EN हिंदी
کوئی بستی کہ مجھ میں بستی ہے | شیح شیری
koi basti ki mujh mein basti hai

نظم

کوئی بستی کہ مجھ میں بستی ہے

وحید احمد

;

میں آخر کس کی جاگت جاگتا ہوں
پپوٹوں میں یہ کس پانی کا نمکیں ذائقہ ہے

مری پتلی میں کس کی رات ہے
اور قرنیہ میں کون سے یگ کا سویرا ہے

یہ دن بھر کون
مژگانی کواڑوں کو مسلسل کھولتا اور بند کرتا ہے

مری تار نظر پر بیٹھ کر
آخر زمانے میں نظر کس کی اترتی ہے

میں آنکھوں سے یہ کس منظر کے اندر بھاگتا ہوں
میں آخر کس کی جاگت جاگتا ہوں؟

بھلا میں کس کا سونا سو رہا ہوں
یہ ریگ خواب پر بنتے بگڑتے کیا نشاں ہیں

مرے اندر تو جتنے قافلے چلتے ہیں
سارے اجنبی ہیں

میں ہر اک خواب میں کوئی شناسا ڈھونڈتا ہوں
یہ کیسی عورتیں ہیں

جو سر میں ریت کا افشاں بھرے
مجھ کو جکڑتی ہیں

جو بعد از اختلاط آہوں سے چیخوں سے پگھل کر
ریت ہو جاتی ہیں گیلی ریت میں!!

یہ بچے کس صدی کے ہیں
جو اپنے قہقہہ آور کھلونے میرے ہاتھوں میں

تھما کر بھاگ جاتے ہیں
یہ کس معبد کے جوگی ہیں

صحیفوں کی زباں میں بولتے ہیں
ان کے فرغل پھڑپھڑاتے ہیں

ہوا میں ریش اڑتی ہے
یہ میں کس کی خوشی کو ہنس رہا ہوں

کس کا رونا رو رہا ہوں
بھلا میں کس کا سونا سو رہا ہوں؟

میں آخر کس کا جینا جی رہا ہوں
میں صحرا کا شجر ہوں

جس کی شاخیں گھونسلوں سے جھک گئی ہیں
کرائے کا مکاں ہوں

جس کے کمروں میں پرائے لوگ رہتے ہیں
فراز کوہ پر کوئی پرانا غار ہوں میں

ہوا سے گونجتا سایہ زدہ ویراں کھنڈر ہوں
کبھی ہوں ایستادہ اور کبھی مسمار ہوں میں

فصیل شہر ہوں یا سایۂ دیوار ہوں میں
مرے اندر سے ہی کوئی مجھے بتلائے

میں کیا ہوں؟
مرے خلیوں کے گیلے مرکزوں میں بند

ڈی این اے مرے ماں باپ کا ہے
جو اس کے گرد پانی ہے

وہ کس بے چین سیارے کے ساگر سے اٹھا ہے
میں کس کو بھوگتا ہوں

یہ آخر کون مجھ میں گونجتا ہے
سنسناتا ہے

میں آخر کس کا ہونا ہو رہا ہوں