کوئی آواز دیتا ہے
حریر و پرنیاں جیسی صداؤں میں
کوئی مجھ کو بلاتا ہے
کچھ ایسا لمس ہے آواز کا جیسے
اچانک فاختہ کے ڈھیر سے کومل پروں پر ہاتھ پڑ جائے
اور ان میں ڈوبتا جائے
بہت ہی دور سے آتی صدا ہے
میں لفظوں کے معانی کی گواہی دے نہیں سکتی
مگر ہر لفظ میں گھنگرو بندھے ہیں
حریم جان میں ان کے پاؤں دھرتے ہی
کئی بے چین پازیبیں دھڑکتی ہیں
لمحوں میں ایک دیوالی سی سجتی ہے
کوئی آواز دیتا ہے
حریر و پرنیاں جیسی صداؤں میں
کوئی مجھ کو بلاتا ہے
نظم
کوئی آواز دیتا ہے
منصورہ احمد