گو ہمیں معلوم تھا
کہ اب وہ سلسلہ باقی نہیں ہے
گو ہمیں معلوم تھا کہ
نوح آنے کے نہیں اب
ہاں مگر جب شہر میں پانی در آیا
ہم نے کچھ موہوم امیدوں کو پالا
اور اک بڑے پنڈال پہ یکجا ہوئے ہم
اور بیک آواز ہم نے نوح کو پھر سے پکارا
گو ہمیں معلوم تھا کہ
نوح آنے کے نہیں اب
گو ہمیں احساس یہ بھی تھا کہ ہم نے
خود ہی وہ سارا سمندر کاٹ کر
اس کا رخ موڑا تھا اپنے شہر کی جانب
مگر ہم مطمئن تھے
موہوم امیدوں کو آئے دن جواں کرتے ہوئے ہم سب
کہ پھر سے نوح آئیں گے
بلائیں گے
جلو میں اپنے تازہ کشتیاں
مخلوق خدا کے تازہ جوڑے لائیں گے
اور ہم پھر سے
نوح کی کشتی میں پانی سے نکل جائیں گے اک دن
کہ اب پانی فصیلیں توڑ کر
شہر کو دریا بنانے پہ تلا ہے
اب نہیں معلوم کہ ہم کس جگہ ہیں کون ہیں ہم
ہم ابھی تک منتظر ہیں
اب ہمیں کامل یقیں ہے
ابن مریم لوٹ آئیں گے
ہمیں زندہ اٹھائیں گے
نظم
کوئی آنے کا نہیں اب
خالد کرار