وہ سرد رات جبکہ سفر کر رہا تھا میں
رنگینیوں سے ظرف نظر بھر رہا تھا میں
تیزی سے جنگلوں میں اڑی جا رہی تھی ریل
خوابیدہ کائنات کو چونکا رہی تھی ریل
مڑتی اچھلتی کانپتی چنگھاڑتی ہوئی
کہرے کی وہ دبیز ردا پھاڑتی ہوئی
پہیوں کی گردشوں میں مچلتی تھی راگنی
آہن سے آگ بن کے نکلتی تھی راگنی
پہنچی جدھر زمیں کا کلیجہ ہلا دیا
دامن میں تیرگی کے گریباں بنا دیا
جھونکے ہوا کے برف بچھاتے تھے راہ میں
جلوے سما رہے تھے لرز کر نگاہ میں
دھوکے سے چھو گئیں جو کہیں سرد انگلیاں
بچھو سا ڈنک مارنے لگتی تھیں کھڑکیاں
پچھلے پہر کا نرم دھندلکا تھا پر فشاں
مایوسیوں میں جیسے امیدوں کا کارواں
بے نور ہو کے ڈوبنے والا تھا ماہتاب
کہرے میں کھپ گئی تھی ستاروں کی آب و تاب
قبضہ سے تیرگی کے سحر چھوٹنے کو تھی
مشرق کے حاشیے میں کرن پھوٹنے کو تھی
کہرے میں تھا ڈھکے ہوئے باغوں کا یہ سماں
جس طرح زیر آب جھلکتی ہوں بستیاں
بھیگی ہوئی زمیں تھی نمی سی فضا میں تھی
اک کشت برف تھی کہ معلق ہوا میں تھی
جادو کے فرش سحر کے سب سقف و بام تھے
دوش ہوا پہ پریوں کے سیمیں خیام تھے
تھی ٹھنڈے ٹھنڈے نور میں کھوئی ہوئی نگاہ
ڈھل کر فضا میں آئی تھی حوروں کی خواب گاہ
بن بن کے پھین سوئے فلک دیکھتا ہوا
دریا چلا تھا چھوڑ کے دامن زمین کا
اس شبنمی دھندلکے میں بگلے تھے یوں رواں
موجوں پہ مست ہو کے چلیں جیسے مچھلیاں
ڈالا کبھی فضاؤں میں خط کھو گئے کبھی
جھلکے کبھی افق میں نہاں ہو گئے کبھی
انجن سے اڑ کے کانپتا پھرتا تھا یوں دھواں
لیتا تھا لہر کھیت میں کہرے کے آسماں
اس وقت کیا تھا روح پہ صدمہ نہ پوچھئے
یاد آ رہا تھا کس سے بچھڑنا نہ پوچھئے
دل میں کچھ ایسے گھاؤ تھے تیر ملال کے
رو رو دیا تھا کھڑکی سے گردن نکال کے
نظم
کہرے کا کھیت
کیفی اعظمی