کتنی بار بلایا اس کو
لیکن اس کے لب لرزے
نہ آنکھوں میں پہچان کا کوندا لہرایا
بس اک پل خالی نظریں اس نے
مجھ پر ڈالیں
اور پلکوں کے پیچھے جا کر
چپ کے بھاری حجرے میں آرام کیا
پر میرے ہونٹوں سے بہتے
لفظوں کا اک دھول اڑاتا شور
چھتوں پھر چھتناروں تک پھیل گیا
پھر اور بھی اوپر
تاروں کے چھتوں سے جا کر لپٹ گیا
پھر اور بھی اونچا اڑتے اڑتے
جڑے ہوئے ہونٹوں کے
اس سنگم پر پہنچا
جس میں کوئی درز نہیں تھی
کہیں بھی کوئی شکن نہیں تھی
چپ کے گیلے گوند سے قاشیں جڑی ہوئی تھیں
نظم
کتنی بار بلایا اس کو
وزیر آغا