میں سن رہا ہوں
میں سن رہا ہوں
تمہاری آنکھوں کا شور
تمہارے مساموں سے بوند بوند ٹپکتی ہوئی آوازیں
تمہاری چھاتیوں کی نیلی نیلی لکیروں کے درمیان
کنمناتے ہوئے بچوں کی سرگوشیاں
پلک جھپکتے ہی
شہر کا شہر ہجرت کر گیا
پڑاؤ ڈال دیے گئے وہاں
جہاں کوئی موسم نہیں ہوتا
درخت پرندوں سے خالی
بچوں کو نیند نہیں آتی
کچھ رونما نہیں ہوتا
چیزوں نے اپنے معمول بدل دیے ہیں
رسول آتے ہیں اور بے بیان چلے جاتے ہیں
خدا کی بستیاں کبھی اتنی ویران نہیں ہوئی تھیں
اب تم آؤ گے
تو دیکھو گے
وقت،
جہاں تہاں سے پھٹ گیا ہے
اسے اپنی راہ پر لانا
کتنا آسان ہے کتنا مشکل
ان ساعتوں پر کمندیں ڈالنا
جنہوں نے موقع پا کر اپنی رفتار پکڑ لی
دیکھتے ہی دیکھتے
دوسری آبادیوں کی طرف نکل گئیں
بجھی ہوئی راکھ کے ڈھیر میں
تسلیاں منہ بسورے ہوئے پڑی ہیں
املتاس کی سوکھی شاخوں پر
ٹنگے ہوئے ہیں صبر کے چیتھڑے
پرزوں میں بدل چکے ہیں
آرزوؤں کے بے پایاں تسلسل
ڈھا چکے ہیں
اندر ہی اندر شیر خار امیدوں کے ٹیلے
جنہیں دیکھ کر
تمہیں یاد آئے گا
رشتوں کے بھرم کتنے سفاک ہوتے ہیں
کتنے پر زور ہوتے ہیں واسطے
جو ٹوٹتے ہیں
تو ان میں سے ایک چیخ بھی بر آمد نہیں ہوتی
سارا جہان ہی ٹوٹ، بکھر جاتا ہے
گردش کرتے ہوئے خون میں
برف کی کیلیں گڑ جاتی ہیں
جیسے سارا جسم ہی آ گیا ہو
کسی سرکش آندھی کی زد میں
اور ایک ایک کر کے
ہڈیوں کے سارے جوڑ ہی کھلتے جا رہے ہوں
بکھرتے جا رہے ہوں سارے مسام
گرتے جا رہے ہوں
ہم ان چوہڑوں پر
جہاں صرف خوابوں کے بیج بوئے جاتے ہیں
اور فصل کے نام پر
حافظے کے عذاب نمو پاتے ہیں
جیسے ہم ایک عظیم ہجر کی پیداوار ہیں
عمریں دکھوں کے حساب سے طویل
دکھ دشمن کی بیدار نگاہوں سے زیادہ زندہ
اپنے کاندھوں پر
اپنی سانسوں کے خمیازے ہیں
اور میں
اپنی ہی نیندوں میں دوڑتے دوڑتے تھک گیا ہوں
نظم
کتنا مشکل ہے
عتیق اللہ