دق تجھ سے کتابیں ہیں بہت کرم کتابی
تو دشمن دزدیدہ ہے خاکی ہو کہ آبی
الفاظ کی کھیتی ہے فقط تیری چراگاہ
معنی کی زمیں تیرے سب سایوں نے دابی
ہونے کو تری اصل ہے صیاد مکیں گاہ
کہنے کو فقط تیری حقیقت ہے سرابی
تو نے تو ہر اک سمت لگائی ہیں سرنگیں
پارینہ ہو فرمان کتابیں ہوں نصابی
بادامی ہو کاغذ تو مزا اور ہی کچھ ہے
لقمہ ہوا تحریر کا ہر مغز شتابی
گھن ساتھ ہی گیہوں کے ہے پستہ ہوا دیکھا
برگشتہ ورق لا نہ سکا تجھ پہ خرابی
کیا خوب ہے یہ مجلس اوراق کہن بھی
ویران کتب خانوں کی دیمک تری لابی
فردوسی و خلدوں کی کتابیں ہیں ہراساں
وہ قلعہ معنی تیرا حملہ ہے جوابی
پردہ ہے خموشی تری آہنگ فنا کی
بھونرا ہے فقط کنج گلستاں کا ربابی
تو چاٹ گیا دانش کہنہ کی فصیلیں
بنیاد عمارت کو ہے ڈھانا تری ہابی
اعداد کے قالب میں ہے تو صفر کی طاقت
صفحات کے سوراخ کا بے نام حسابی
تاریخ کے اس سیل میں انسان نے پائی
ایک آدھ کوئی موج نفس وہ بھی حبابی
بکتے سر بازار ہیں مانند زغال آج
جو تازہ نفس خواب تغیر تھے شہابی
کھا جاتی ہے اک دن اسے سب گرد زمانہ
مٹی کی وہ صحنک ہو کہ چینی کی رکابی
بدلی ہوئی دنیا میں تغیر کا عمل ہے
تو کرم کتابی نہیں اک کرم خلل ہے
نظم
کتاب کا کیڑا
عزیز حامد مدنی