یہ دھرتی یہ جیون ساگر یہ سنسار ہمارا ہے
امرت بادل بن کے اٹھے ہیں پربت سے ٹکرائیں گے
کھیتوں کی ہریالی بن کر چھب اپنی دکھلائیں گے
دنیا کا دکھ سکھ اپنا کر دنیا پر چھا جائیں گے
ذرہ ذرہ اس دنیا کا آج گگن کا تارا ہے
یہ دھرتی یہ جیون ساگر یہ سنسار ہمارا ہے
دکھ بندھن کٹ جائیں گے سکھ کا سندیسہ آئے گا
مٹی اب سونا اگلے گی بادل ہن برسائے گا
محنت پر ہے جس کا بھروسہ محنت کا پھل پائے گا
اپنے ہی کس بل کا سمندر وقت کا بہتا دھارا ہے
یہ دھرتی یہ جیون ساگر یہ سنسار ہمارا ہے
سپنوں کے سندر آنچل سے آشا روپ دکھاتی ہے
اپنی ہی آواز کی لے پر ساری دنیا گاتی ہے
آج ترنگے کی لہروں میں بجلی سی لہراتی ہے
ایک ہی وار میں اب اے ساتھی دشمن سے چھٹکارا ہے
یہ دھرتی یہ جیون ساگر یہ سنسار ہمارا ہے
نظم
کسانوں کا گیت
مسعود اختر جمال