دیکھو، ہم سب ایک سفید کنول پر
ٹیک لگائے تیر رہے ہیں
اور محسوس یہ کرتے ہیں کہ ہم نے خود کو
ناف زمیں سے مضبوطی سے باندھ رکھا ہے
اپنی ہر خواہش کو ہم نے
قتل کیا ہے
تاکہ دل میں کوئی تمنا سر نہ اٹھانے پائے
ذہن میں کوئی نیا خیال اگر در آتا ہے
تو ہم اس پر
خود اپنے ہاتھوں چونا کر دیتے ہیں
کوئی روزن
تازہ ہوا کے پھانکنے کو گر کھلتا ہے
تو کیچڑ سے بھر دیتے ہیں
نظم
کردار
محسن احسان