ہاں
میں اسی پانی کی بوند ہوں
جو تمہارے کمرے کے کونے میں پڑی
صراحی میں رہتا تھا آخر کار
تمہارا سمندر
نہ جانے کتنے دریاؤں کا
پیاسا تھا اور
جگ جگ پھرتا تھا
میں
ہر شام
صراحی کی حدیں پار کرتی
تمہارے ہونٹ
طراوت کے ذائقے لیتے
جگ جگ پھرنے کی
تھکن مٹ جاتی
پر ہر جگ سے لایا گیا گیان
تمہیں سویم بھگوان بنا گیا
پھر تمہارے
پتھریلے ہاتھ اٹھے
کونے میں پڑی صراحی
توڑ بیٹھے اور
چوٹ
پانی کو لگی
بوند بوند درد سے تڑپ اٹھی
سر پٹکنے لگی
تم اپنی سوکھی آتما کو لے چلو یہاں سے
کن سوچوں میں ڈوبے ہو
میں اسی پانی کی بوند ہوں

نظم
کن سوچوں میں ڈوبے ہو
شبنم عشائی