میں نے آشاؤں کی آنکھیں
چہرے ہونٹ اور نیلے بازو
نوچ لیے ہیں
ان کے گرم لہو سے میں نے
اپنے ہاتھ بھگو ڈالے ہیں
دوپہروں کی تپتی دھوپ میں
خواہشیں اپنے جسم اٹھا کر
چوبی کھڑکی کے شیشوں سے
اکثر جھانکتی رہتی ہیں
آنکھیں ہونٹ اور زخمی بازو
جانے کیا کچھ مجھ سے کہتے رہتے ہیں
جانے کیا کچھ ان سے کہتا رہتا ہوں
رات گئے تک زخمی خواہشیں
بستر کی اک اک سلوٹ سے
نکل نکل کر روتی ہیں
اور سحر کو ان کے خون سے
اپنے ہاتھ بھگو لیتا ہوں
نظم
خواہشیں اور خون
تبسم کاشمیری