EN हिंदी
خوابوں سے ڈر لگتا ہے | شیح شیری
KHwabon se Dar lagta hai

نظم

خوابوں سے ڈر لگتا ہے

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

کل کا سورج اسی دہلیز پہ دیکھے گا مجھے
کل بھی کشکول مرا شام کو بھر جائے گا

کل کی تخلیق بھی ہوگی یہی اک نان جویں
کل بھی ہر دن کی طرح یوں ہی گزر جائے گا

بھوک کی آگ جو بجھتی ہے تو نیند آتی ہے
نیند آتی ہے تو کچھ خواب دکھاتی ہے مجھے

خواب میں ملتے ہیں کچھ لوگ بچھڑ جاتے ہیں
ان کی یاد اور بھی رہ رہ کے ستاتی ہے مجھے

کل بھی ڈھونڈوں گا انہیں جا کے گلی کوچوں میں
کل بھی مل جائیں گے ان خوابوں کے پیکر کتنے

کل بھی یہ ہاتھ لگاتے ہی بدل جائیں گے
کل بھی پھینکیں گے مری سمت یہ پتھر کتنے

آج کی رات مجھے نیند نہیں آئے گی
آج کی رات مجھے خوابوں سے ڈر لگتا ہے