دل میں اک معدوم زمانے کے
اور اک دنیا کے ہونے کی
امید لیے
آنکھوں میں پت جھڑ تھامے
ساکت سرد ہوا پر اڑتی تتلی
رک جا
تھم جا
مجھے یہ ڈر لگتا ہے
اک دن یہی ساکت سرد ہوا
جھکڑ بن جائے گی
یہی تلوے چومتی مٹی
بگولے بن کر
تیرے تعاقب میں نکلے گی
تیرے نرم پروں کی دشمن
پاگل تتلی
تیرے خواب تیری دنیا ہیں
لیکن اک دنیا
تیرے خوابوں سے باہر بھی بستی ہے
اس دنیا میں جینا سمجھوتہ ہے
لیکن خوابوں کو سمجھوتے راس نہیں آتے
پھر بھی تو نے اسی ہوا پر اڑنا ہے
ان شاخوں پر پھول بہت کم اگتے ہیں
لیکن تجھے تو انہی شاخوں پر بیٹھنا ہے
تھم جا تتلی
میرے دل کی مٹی میں اب پھول نہیں کھلتے
لیکن جب بھی پھول کھلے
تم پہلے پھول پہ بیٹھنا
مجھ میں اڑنا
جب تک دل چاہے
تھم جا تتلی
نظم
خوابوں کو سمجھوتے راس نہیں آتے
انور سین رائے