EN हिंदी
خواب جو بکھر گئے | شیح شیری
KHwab jo bikhar gae

نظم

خواب جو بکھر گئے

عامر عثمانی

;

جنہیں سحر نگل گئی، وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی، شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

مجھے نمک کی کان میں مٹھاس کی تلاش ہے
برہنگی کے شہر میں لباس کی تلاش ہے

وہ برف باریاں ہوئیں کہ پیاس خود ہی بجھ گئی
میں ساغروں کو کیا کروں کہ پیاس کی تلاش ہے

گھرا ہوا ہے ابر ماہتاب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی، وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں

کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں
جو رک سکے تو روک دو یہ سیل رنگ و نور کا

مری نظر کو چاہئے وہی چراغ دور کا
کھٹک رہی ہے ہر کرن نظر میں خار کی طرح

چھپا دیا ہے تابشوں نے آئنہ شعور کا
نگاہ شوق جل اٹھی حجاب ڈھونڈھتا ہوں میں

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

یہ دھوپ زرد زرد سی یہ چاندنی دھواں دھواں
یہ طلعتیں بجھی بجھی، یہ داغ داغ کہکشاں

یہ سرخ سرخ پھول ہیں کہ زخم ہیں بہار کے
یہ اوس کی پھوار ہیں، کہ رو رہا ہے آسماں

دل و نظر کے موتیوں کی آب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں

کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں
یہ تلخ تلخ راحتیں، جراحتیں لیے ہوئے

یہ خونچکاں لطافتیں کثافتیں لیے ہوئے
یہ تار تار پیرہن عروسۂ بہار کا

یہ خندہ زن صداقتیں قیامتیں لیے ہوئے
زمین کی تہوں میں آفتاب ڈھونڈھتا ہوں میں

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

جو مرحلوں میں ساتھ تھے وہ منزلوں پہ چھٹ گئے
جو رات میں لٹے نہ تھے وہ دوپہر میں لٹ گئے

مگن تھا میں کہ پیار کے بہت سے گیت گاؤں گا
زبان گنگ ہو گئی، گلے میں گیت گھٹ گئے

کٹی ہوئی ہیں انگلیاں رباب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں

کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں
یہ کتنے پھول ٹوٹ کر بکھر گئے یہ کیا ہوا

یہ کتنے پھول شاخچوں پہ مر گئے یہ کیا ہوا
بڑھی جو تیز روشنی چمک اٹھی روش روش

مگر لہو کے داغ بھی ابھر گئے یہ کیا ہوا
انہیں چھپاؤں کس طرح نقاب ڈھونڈھتا ہوں میں

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

خوشا وہ دور بے خودی کہ جستجوئے یار تھی
جو درد میں سرور تھا تو بے کلی قرار تھی

کسی نے زہر غم دیا تو مسکرا کے پی گئے
تڑپ میں بھی سکوں نہ تھا، خلش بھی سازگار تھی

حیات شوق کا وہی سراب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں

کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں
خلوص بے شعور کی وہ زود اعتباریاں

وہ شوق سادہ لوح کی حسین خامکاریاں
نئی سحر کے خال و خد، نگاہ میں بسے ہوئے

خیال ہی خیال میں، وہ حاشیہ نگاریاں
جو دے گیا فریب وہ، شباب ڈھونڈھتا ہوں میں

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

وہ لعل و لب کے تذکرے، وہ زلف و رخ کے زمزمے
وہ کاروبار آرزو وہ ولولے، وہ ہمہمے

دل و نظر کی جان تھا وہ دور جو گزر گیا
نہ اب کسی سے دل لگے نہ اب کہیں نظر جمے

سمند وقت جا چکا رکاب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں

کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں
نہ عشق با ادب رہا، نہ حسن میں حیا رہی

ہوس کی دھوم دھام ہے، نگر نگر، گلی گلی
قدم قدم کھلے ہوئے ہیں مکر و فن کے مدرسے

مگر یہ میری سادگی تو دیکھیے کہ آج بھی
وفا کی درس گاہوں کا نصاب ڈھونڈھتا ہوں میں

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

بہت دنوں میں راستہ حریم ناز کا ملا
مگر حریم ناز تک پہنچ گئے تو کیا ملا

مرے سفر کے ساتھیو! تمہیں سے پوچھتا ہوں میں
بتاؤ کیا صنم ملے، بتاؤ کیا خدا ملا

جواب چاہئے مجھے جواب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں

کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں