EN हिंदी
خواب اک پرندہ ہے | شیح شیری
KHwab ek parinda hai

نظم

خواب اک پرندہ ہے

علی اصغر عباس

;

خواب اک پرندہ ہے
آنکھ کے قفس میں یہ

جب تلک مقید ہے
عکس بن کے زندہ ہے

خواب اک پرندہ ہے
خواب اک پرندہ ہے

زرد موسموں میں بھی
خوش گوار یادوں کو

تازہ کار رکھتا ہے
آنے والے موسم کے

گیت گنگناتا ہے
شاخ شاخ پر مہکے

پھول چن کے لاتا ہے
اور پھر ہوا کے دوش

خوشبوؤں کا ساتھی ہے
خواب اک پرندہ ہے

خواب اک پرندہ ہے
زیست کے سمندر میں

خواہشیں جزیرہ ہیں
اور اس جزیرے میں

خوف کا اندھیرا ہے
اور اس اندھیرے میں

خواب سا پرندہ ہے
صبح کا ستارہ ہے

دن کا استعارہ ہے