پھر اسی شہر میں آئے ہو پلٹ کر کہ جہاں
چند ہوتے ہیں جو تم نے دکھائے تھے خواب
چند دن ہوتے ہیں جب تم نے سجائے تھے گلاب
جن میں خوشبو بھی تھی اور رنگ بھی مانند شہاب
تم گئے خواب رہے اور زمانے کے عذاب
ڈھونڈتے رہ گئے لب کتنے سوالوں کے جواب
اب جو آئے ہو تو اتنا سا کرم کر جانا
اب کے بیمار سے خوابوں کی مہک مت لانا
اب جو دکھلانا تو کچھ خواب نئے دکھلانا
ایسے کچھ خواب زمینوں کو جو شاداب کریں
ایسے کچھ خواب جو شہروں کو بھی شاداب کریں
ایسے کچھ خواب جو تقدیر خیالات کے ہوں
ایسے کچھ خواب جو میراث ہوں انسانوں کی
تم جو ایسا نہ کرو گے تو وہی غم ہوں گے
ربط باہم کے نہ اسباب فراہم ہوں گے
مطمئن خود سے کہیں تم نہ کہیں ہم ہوں گے
نظم
خواب فروش
رضی رضی الدین