EN हिंदी
خواب | شیح شیری
KHwab

نظم

خواب

انکتا گرگ

;

ایک بچی ہوا کرتی تھی
بہت اچھی ہوا کرتی تھی

شریر سے زیادہ وہ خواب ہوا کرتی تھی
مچلی سی وہ آنکھیں ہمدم

بس خواب بنا کرتی تھی
ایک بچی ہوا کرتی تھی

بہت اچھی ہوا کرتی تھی
نہ واسطہ لوگوں سے تھا

نہ کھیلنا باتوں سے تھا
نہ باتیں دنیا داری کی تھی

نہ مطلب کی دنیا ساری تھی
نہ قصے لوگوں کی نفرت کے تھے

نہ حصہ ان کی ہی حسرت کے تھے
جو ٹوٹ گئے کہیں راہ میں

جو رہ گئے کہیں بس آہ میں
راہیں ہر دم صاف تھی

سب کی غلطیاں بھی معاف تھی
دل میں بوجھ نہیں رکھتی تھی

وہ خواب سے کھیلا کرتی تھی
شریر سے زیادہ وہ خود خواب ہوا کرتی تھی

ایک بچی ہوا کرتی تھی
دل کی سچی ہوا کرتی تھی

دوستوں کی کمی نہ تھی
پر کھد سے زیادہ کسی سے جمی نہ تھی

تب تو رب ہی بھگوان ہوا کرتے تھے
اور بھگوان سے ہم باتوں میں دعا کرتے تھے

زباں پہ شبد بہت سارے نہ ہوں
پر بھاؤناؤں کی کمی نہ تھی

مشکلوں کو بھی ہنس کر جیتے تھے
ہاں روتے بے شک تھے

پر کبھی حوصلے پست ہوں
آنکھوں میں ایسی نمی نہ تھی

بیتے کو چھوڑ دیا شکوؤں کو بھی موڑ دیا
پیار جہاں سے ملتا تھا

وہاں خود کو اس نے توڑ دیا
امیدیں اس میں خوب بھری تھی

غلطیاں اس نے بھی خوب کری تھی
پر دل صاف تھا اوپر رب کا ہاتھ تھا

تو بس باتوں میں ہی
تو بس کانٹوں سے بھی

دوستی سچی کیا کرتی تھی
ایک بچی ہوا کرتی تھی

ارادوں کی پکی ہوا کرتی تھی
نہ زمانہ کا ڈر

وہ تھی بے فکر
اب زنجیریں اس پے لاد دی

سو چیزیں دماغ میں ڈال دی
ذمہ داری کے نام پر

آزادی اس کی مار دی
آنسو اس کی کمزوری تھے

پر کمزوری سے وہ زار تھی
اس لئے تو انہی کی آڑ میں سب نے

جیت اس سے چھین لی
ہر دم اس کو ہار دی

پر کہا نہ وہ عام نہ تھی
کھد سے وہ انجان نہ تھی

اسے معلوم تھا کیا چل رہا ہے
کون کس سے رہا ہے ہے

کون کیسے سنبھل رہا ہے
وہ کھد کو اٹھانے میں مانا کرتی تھی

وقت آنے پر
وہ کھد کو جھکانے میں مانا کرتی تھی

مانا جیت چاہتی تھی
پر کسی کو گرانا اس کی فطرت میں نہ تھا

چوٹ دینا کسی کو اسی حسرت میں نہ تھا
آخر روگ ہر تھی وہ

باتوں سے اپچار کیا کرتی تھی
لوگوں کو خواب دکھا کر

خود اپچار ہوا کرتی تھی
ایک بچی ہوا کرتی تھی

بڑی اچھی ہوا کرتی تھی
کہیں کھو گیا وہ بچپنا

کہیں کھو گئی وہ بچی
جو اچھی ہوا کرتی تھی

جو سچی ہوا کرتی تھی
اب بھی دل اس کا بچہ ہے پر دنیا دیکھ رو گیا

نا امیدی کی اس بھیڑ میں وہ امیدوں سنگ بھی کھو گیا
ایک آہ جو چھوٹی تھی امید اس کی جو لوٹی تھی

اسے توڑ توڑ کر
اب جوڑ جوڑ کر

وہ آس جوڑنے چلی ہے
روح جان کر اپنی وہ

یہ راز چھوڑنے چلی ہے
زنجیروں کی اس دنیا کے سب

وہ بندھن توڑنے چلی ہے
ہر ٹیڑھی راہوں کو وہ کچھ ایسے موڑ نے چلی ہے

کے دکھ تو ہو پر حتاشہ نہ ہو
ایک جنون ہو پر بے تحاشہ نہ ہو

وہ چاہتی ہے
ہر چاہت میں ایک چاہت ہو

جو کسی سے غلط نہ ہونے دے
جو کسی کو غلط نہ ہونے دے

وہ چاہتی ہے
ہر عادت میں ایک عادت ہو

جو عادت بگڑنے نہ دے
جو لت کو جنون سے بھڑنے نہ دے

وہ چاہتی ہے
ہر آہٹ میں ایک آہٹ ہو

جو دل کو بھٹکنے نہ دے
جو سہی کو غلط سے جھٹکنے نہ دے

جو امیدوں کو راہ میں لٹکنے نہ دے
وہ چاہتی ہے

ہر بڑپن میں بھی بچپن ہو
عمر چاہے پھر پچپن ہو

وہ چاہتی ہے
نا امیدی کے ان بھنوروں میں بھی

امیدوں کا سورج نکلے
پتھر کی ان مورت میں بھی

کہیں تو چھپا موم پگھلے
وہ چاہتی ہے

کہ ایک دن کوئی جھٹکا ملے
زندگی کو پتہ چلے

کہ زندگی باقی ہے
وہ چاہتی ہے

وہ چاہتی ہے ایک سپنا پانا
پھر سے اپنے سپنے جینا

پھر سے ہر اک خواب بننا
پھر سے ہر اک کانٹا چننا

پر اس بار وہ چاہتی ہے
پھر سے وہ اک بچی بننا

جسے گایا کرتی تھی
دنیا سنایا کرتی تھی

وہ چاہتی ہے
پھر سے وہ ایک بچی بننا

کہ دنیا پھر سے گئے
یہ دنیا پھر سنائے

کہ ایک بچی ہوا کرتی تھی
بہت اچھی ہوا کرتی تھی

وہ خواب چننا جانتی تھی
وہ خواب بننا جانتی تھی

شریر سے زیادہ میں خود خواب ہوا کرتی تھی
ایک بچی ہوا کرتی تھی