EN हिंदी
خواب سحر | شیح شیری
KHwab-e-sahar

نظم

خواب سحر

اسرار الحق مجاز

;

مہر صدیوں سے چمکتا ہی رہا افلاک پر
رات ہی طاری رہی انسان کے ادراک پر

عقل کے میدان میں ظلمت کا ڈیرا ہی رہا
دل میں تاریکی دماغوں میں اندھیرا ہی رہا

اک نہ اک مذہب کی سعیٔ خام بھی ہوتی رہی
اہل دل پر بارش الہام بھی ہوتی رہی

آسمانوں سے فرشتے بھی اترتے ہی رہے
نیک بندے بھی خدا کا کام کرتے ہی رہے

ابن مریم بھی اٹھے موسی عمراں بھی اٹھے
رام و گوتم بھی اٹھے فرعون و ہاماں بھی اٹھے

اہل سیف اٹھتے رہے اہل کتاب آتے رہے
ایں جناب اٹھتے اور آنجناب آتے رہے

حکمراں دل پر رہے صدیوں تلک اصنام بھی
ابر رحمت بن کے چھایا دہر پر اسلام بھی

مسجدوں میں مولوی خطبے سناتے ہی رہے
مندروں میں برہمن اشلوک گاتے ہی رہے

آدمی منت کش ارباب عرفاں ہی رہا
درد انسانی مگر محروم درماں ہی رہا

اک نہ اک در پر جبین شوق گھستی ہی رہی
آدمیت ظلم کی چکی میں پستی ہی رہی

رہبری جاری رہی پیغمبری جاری رہی
دین کے پردے میں جنگ زرگری جاری رہی

اہل باطن علم سے سینوں کو گرماتے رہے
جہل کے تاریک سائے ہاتھ پھیلاتے رہے

یہ مسلسل آفتیں یہ یورشیں یہ قتل عام
آدمی کب تک رہے اوہام باطل کا غلام

ذہن انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں
زندگی کی سخت طوفانی اندھیری رات میں

کچھ نہیں تو کم سے کم خواب سحر دیکھا تو ہے
جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک ادھر دیکھا تو ہے