EN हिंदी
خون تازہ | شیح شیری
KHun taza

نظم

خون تازہ

صہبا اختر

;

موسم سرما کی رات
جس کے سردی میں رچے برفیلے ہاتھ

جب بھی چھوتے ہیں مجھے
کپکپا اٹھتا ہوں میں

میں عجب برزخ میں ہوں
اپنی بیوی کا شناسا جسم بھی

اب مجھے سیراب کر سکتا نہیں
میرے اندر خواہشوں کا ایک پیاسا بھیڑیا

آج بے کل ہے بہت
خون تازہ کے لیے