وہ کیا تھا
قہقہہ تھا
چیخ تھی
چنگھاڑ تھی
یا دہاڑ تھی؟
اس نے سماعت چیرتی آواز کا گولا
اترتی رات کی بھیگی ہوئی پہنائی میں داغا
تو میرے پاؤں کے نیچے زمین چلنے لگی
یہ تم نے کیا کیا؟ میری دبی آواز نے پوچھا
تو وہ اک گھونٹ پانی سے پھٹی آواز کو سی کر
کسی اندھے کنویں کی تہہ سے بولا
مجھے جب بھی میری بے درد سوچیں تنگ کرتی ہیں
زمانے کی روش سے جب مری خود رو دلیلیں جنگ کرتی ہیں
کتابیں جب مرے سر کا نشانہ باندھ کے اپنی عبارت سنگ کرتی ہیں
تو مجھ سے اور کچھ بھی ہو نہیں سکتا
میں یہ بے درد آوازا لگاتا ہوں
وگرنہ سو نہیں سکتا
نظم
خود رو دلیلیں
وحید احمد