خداوندا یہ کیسا جبر ہے
میں نے تری رسی کو پکڑا ہی نہیں لیکن
مجھے رسی نے جکڑا ہے
مجھے کہتے ہیں تم آزاد ہو، اپنے لیے چن لو
مگر بحر فنا کو جانے والے مجھ کو رکنے ہی نہیں دیتے
میں رکنا چاہتا ہوں
اس حسیں کے آن ملنے تک کہ جو رستے میں پیچھے رہ گئی تھی
بیابان نمو کی بے کراں تاریکیوں میں
ان گنت روحوں کی دھکم پیل تھی
تب بھی وہی جھوٹی کہانی تھی
کہ تم آزاد ہو لیکن
اندھیرا بھیڑ اور وحشت میں لمبی غار کے پرلے سرے پر
ٹمٹماتی روشنی تک سب کو آنا تھا
وہ پیچھے رہ گئی، میں جبر کی رسی میں جکڑا غار سے باہر نکل آیا
میں رکنا چاہتا ہوں اس حسیں کے آن ملنے تک
کہ جو رستے میں پیچھے ہے
میں اس کا منتظر ہوں کتنے برسوں سے
خداوند فنا!
میں تیری رسی کے کئی بل کھول کر
عمر رواں کے زہر سے بچتا رہا ہوں
پھر بھی میرا جسم جو ہستی کے جوہر کا لبادہ ہے
پرانا ہو گیا ہے
میں رکنا چاہتا ہوں اس حسیں کے آن ملنے تک
کہ جب اس کا لبادہ بھی پرانا ہو
تو ہم مل کر ترے بحر فنا کے اس کنارے پر
پرانے پیرہن دھو لیں
پھر اس کے بعد بھی تیری یہی ضد ہو تو لے جانا!!
نظم
نظم
مبارک حیدر