EN हिंदी
خدا وہ وقت نہ لائے | شیح شیری
KHuda wo waqt na lae

نظم

خدا وہ وقت نہ لائے

فیض احمد فیض

;

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے

تری مسرت پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے

غموں سے آئینۂ دل گداز ہو تیرا
ہجوم یاس سے بیتاب ہو کے رہ جائے

وفور درد سے سیماب ہوکے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے

غرور حسن سراپا نیاز ہو تیرا
طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے

تری نگاہ کسی غم گسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے

کوئی جبیں نہ ترے سنگ آستاں پہ جھکے
کہ جنس عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے

فریب وعدۂ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے

وہ دل کہ تیرے لیے بے قرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے