غزوۂ خندق کا سفر
زبان کی خندق تک آ پہنچا
لیکن سازشیں ہتھیائی نہیں جا سکیں
ابلیس کی معیت میں
نماز حاجات ادا کرنے والے
ہتھیلیوں میں جنت بھر کے کہتے ہیں
خدایا
یہ دودھ اور شہد کی نہریں
کس کے لئے بچا رکھی ہیں
تیری زمین پہ تو اب
کچرے کے ڈھیر سے
رزق نہیں انسانی کھلونے ملتے ہیں
ظالموں نے مشکیں کس لیں
اور تیری دراز رسیوں نے
ہزاروں عیسیٰ مصلوب کر دئیے
تیری تیوری میں بل پڑتا ہے تو
زمین طیش میں تھوتھنی ہلاتی ہے
اور آسمان ساری رات
اس پہ بھونکتا رہتا ہے
دیکھ تیرے کھلونوں کی
زبان درازی بڑھ گئی ہے
اور لکھنے والوں کے لئے
ساری کہانیاں
باسی کڑھی کے ابال جیسی ہو گئی ہیں
اس لئے سرخیوں میں اب
تیری مصروفیت پہ سوال اٹھایا جا رہا ہے
تو چپ چاپ مٹی کو
کھنکتے ہوئے سنتا ہے
کبھی بول کے بھی دیکھ
نظم
خدا قہقہہ لگاتا ہے
سدرہ سحر عمران