EN हिंदी
خدا گواہ | شیح شیری
KHuda gawah

نظم

خدا گواہ

یحی امجد

;

خدا گواہ دل اک لمحہ بھی نہیں غافل
تمہاری یاد بھی باقی ہے دکھ بھی باقی ہے

وہ شام غم بھی اسی طرح دل پہ قائم ہے
وہ روز سخت بھی سینے میں درد بن کر ہے

جب ایک حملۂ دل تم پہ ظلم کرتا تھا
عظیم شہر کے مرکز میں اک اداس سا گھر

علاج سے محروم
تمہارے دکھ میں تڑپنے کو دیکھ کر چپ تھا

تو سارے شاہی محلات شور عیش میں تھے
مجھے تو فلسفۂ صبر بھی گوارا ہے

(اگرچہ اصل میں یہ قاتلوں کی منطق ہے)
مگر یہ فلسفہ اس دل کو کون سمجھائے

جو تیری یاد کے غم کو خدا سمجھتا ہے
اگر گئے ہوئے اک لمحہ مڑ کے آ سکتے

فنا کے بعد دوبارہ حیات اگر ہوتی
تو میں ضرور لپٹ کر تمہارے سینے سے

تمام قصۂ غم آنسوؤں میں برساتا
مگر مجھے تو خبر ہے کہ یہ نہیں ممکن

اسی لیے مرے دل میں الم بھی باقی ہے
تری جہاد مسلسل سی زندگی کی کتاب

مری حیات کے اک اک ورق پہ لکھی ہے
جو تو نے راہ میں چھوڑا تھا پرچم تگ و دو

حریف کچھ بھی کہیں آج میرے ہاتھ میں ہے
قرار خاطر محزوں اگر کوئی شے ہے

تو اسی کا خیال!