زندگی ناچ کہ ہر لمحہ ہے جنت بہ کنار
دیکھ یہ لب ہیں یہ آنکھیں یہ گلابی رخسار
پھر نہ آئے گی پلٹ کر تری دنیا میں بہار
آج کی رات غنیمت ہے چراغاں کر لیں
ایک انگڑائی جو لی کھل گئیں کالی زلفیں
پھر مجھے کھینچ رہی ہیں یہ گھنیری پلکیں
دیکھ ہیجان سے لرزاں ہیں یہ عارض کی رگیں
آج اس جنس گراں بار کو ارزاں کر لیں
آج کی رات غنیمت ہے چراغاں کر لیں
دیکھ وہ ہونٹ ہلے ہاتھ اٹھے ساز بجے
دیکھ پازیب کی ہر لے پہ ستارے چونکے
آسمانوں پہ فرشتوں کے وضو ٹوٹ گئے
آج معصوم خداؤں کو بھی مہماں کر لیں
آج کی رات غنیمت ہے چراغاں کر لیں
رات کچھ بھیگ چلی اور جماہی آئی
جھلملاتی ہوئی شمعوں کی ضیا کانپ گئی
رکھ دے یہ آتش سیال کہ پھر آگ لگی
آخری بار ہر اک درد کا درماں کر لیں
آج کی رات غنیمت ہے چراغاں کر لیں
کیا غرض وقت کے ماتھے پہ شکن ہے کہ نہیں
میری محبوب کلائی میں رسن ہے کہ نہیں
تیرا آنچل ہی شہیدوں کا کفن ہے کہ نہیں
ہر حقیقت کو اسی خواب میں غلطاں کر لیں
آج کی رات غنیمت ہے چراغاں کر لیں
نظم
خود کشی سے پہلے
اختر پیامی