خودکشی کے پل پر
سمندر کی لہروں میں بہتی
فسردہ و ناکام
جسموں کی روحیں
بلاتی ہیں مجھ کو
چلے آؤ ہر غم سے دامن چھڑا لو
مٹا دو
فنا ہونے والے بدن کو مٹا دو
فنا سے نہ ڈرنا
یہی اصل میں زندگی ہے
اسی میں حقیقی خوشی ہے
سمندر کی لہروں میں
سیال روحوں کے
گیتوں میں بے حد کشش ہے
یہ دل چاہتا ہے
کہ میں جا ملوں ان سے
ان سا ہی ہو جاؤں
پر میں انہیں کس طرح یہ بتاؤں
کہ اے اضطراب مسلسل کے گرداب میں قید روحو
مجھے تم سے ہمدردی ہے
پیار ہے
میں خود چاہتا ہوں
من و تو کی ساری فصیلیں پھلانگوں
مگر کیا کروں
کچھ مقدس سے رشتے
دعا گو سی آنکھیں
مجھے یاد آتی ہیں
چپ چاپ گھر لوٹ آتا ہوں میں
ان حسیں پیارے لوگوں کی خاطر تو
جینا پڑے گا
یہ زہراب پینا پڑے گا
نظم
خودکشی کے پل پر
فہیم شناس کاظمی