موٹر کے پہیے بجلی کے کھمبے پہ چند چھینٹے کچھ
چکنی سڑک پہ دور تک اک سرخ سی لکیر
فٹ پاتھ پہ کچھ جا بجا دھبے سیاہ و سرخ
نالی کے گدلے پانی کے سینے پہ چند داغ
باؤنڈری وال پر بھی کچھ اسپاٹ کھردرے
چہروں پہ راہگیروں کے ناخوش گوار نقش
ماحول میں اک لمحہ کو بے نام سا تناؤ
آنکھیں مری ابل پڑیں حیران رہ گیا
گویا کہ آج تک کا کیا رائیگاں گیا
دریا اگر نہیں تو رواں جوئے خوں سہی
نظم
خودکشی کا المیہ
انجم عرفانی