بس اک لمحہ کا جھگڑا تھا
در و دیوار پر ایسے چھناکے سے گری آواز جیسے کانچ گرتا ہے
ہر اک شے میں گئیں اڑتی ہوئی، جلتی ہوئی کرچیں
نظر میں، بات میں، لہجے میں، سوچ اور سانس کے اندر
لہو ہونا تھا اک رشتے کا سو وہ ہو گیا اس دن!!
اسی آواز کے ٹکڑے اٹھا کے فرش سے اس شب
کسی نے کاٹ لیں نبضیں
نہ کی آواز تک کچھ بھی
کہ کوئی جاگ نہ جائے!
نظم
خود کشی
گلزار