(تیسری دنیا کے تمام لوگوں کے نام)
عجب حادثہ ہے
کہ بچپن میں ہم جن کھلونوں سے کھیلے تھے
اب وہ کھلونے
ہمارے ہی حالات سے کھیلتے ہیں
وہ نازک مجسمے
وہ رنگین گڑیائیں
طیارے پستول
فوجی، سپاہی
کبھی جو ہمارے اشاروں کے محتاج تھے
آفریں تجھ پہ معیار گردش!
کہ اب وہ کھلونے
ہمیں چابیاں بھر رہے ہیں
ہمارے مویشی ہمارے ہی باغات کو چر رہے ہیں
کھلونوں کے اس کھیل میں
ہم تو یوں کھو گئے ہیں
کہ ہر کام کی ہم سے امید رکھ لو
اگر کوئی تقوے کی چابی گھما دے
تو داڑھی بڑھا لیں
اگر کوئی تھوڑی سی قیمت لگا کر
کسی شخص کا گھر بتا دے
تو اگلے ہی پل میں اس کی گردن اڑا دیں
ہمارا ہے کیا
ہم تو اندھے مؤذن ہیں
بازو پکڑ کے جو گرجے میں لے جاؤگے
تو بھی مریم کی تصویر کے سامنے
انگلیاں کان میں ٹھونس لیں گے
ہمارا ہے کیا
ہم تو پتھر کی وہ مورتی ہیں
جسے چاہے سجدہ کرو
یا طمانچہ لگا دو
مگر وہ تو ہاتھوں سے چھاتی چھپائے
سدا مسکراتی رہے گی
نظم
کھلونے
وحید احمد