وطن کی خدمت بے لوث ہے ہر شخص پر لازم
یہی وہ کام ہے جو آدمی کے کام آتا ہے
لگا دی جاتی ہے حب وطن میں سر کی بازی بھی
اک ایسا بھی وفور جوش میں ہنگام آتا ہے
پلٹنے ہی کو ہے قسمت تمہاری اے وطن والو
تمہارے واسطے یہ عرش سے پیغام آتا ہے
غلامی دور ہوتی ہے تمہاری اب کوئی دم میں
حکومت اور سرداری کا پھر ہنگام آتا ہے
مصیبت ہے یہ بالکل عارضی اس پر نہ گھبرانا
بس اب آتا ہے عہد راحت و آرام آتا ہے
وہی پھر بھی بزم ہوگی پھر وہی رنگینیاں ہوں گی
وہی پیمانہ آتا ہے وہی پھر جام آتا ہے
تم اپنی ناتوانی سے پریشاں اس قدر کیوں ہو
کبھی کمزور ہونا بھی بشر کے کام آتا ہے
مٹا دیتا ہے دم میں نخوت نمرود اک مچھر
کبھی ایسا بھی دور گردش ایام آتا ہے
خدا را اس نزاع باہمی کو ختم فرما دو
ذرا سوچو کہ تم پر کس قدر الزام آتا ہے
کبھی چھڑتا ہے گر مذکور، قوموں کی جہالت کا
تو سب سے پہلے کانوں میں تمہارا نام آتا ہے
یہ نکتہ یاد رکھو اس کو بھولا کہہ نہیں سکتے
جو وقت صبح جا کر، گھر پہ وقت شام آتا ہے
نظم
خدمت وطن
احمق پھپھوندوی