کھڑکی اندھی ہو چکی ہے
دھول کی چادر میں اپنا منہ چھپائے
کالی سڑکیں سو چکی ہیں
دھوپ کی ننگی چڑیلوں کے سلگتے قہقہوں سے
جا بجا پیڑوں کے سائے جل رہے ہیں
میز پر گلدان میں ہنستے ہوئے پھولوں سے
میٹھے لمس کی خوشبو کا جھرنا بہہ رہا ہے
ایک سایہ آئینے کے کان میں کچھ کہہ رہا ہے
عہد رفتہ کی گلہری
خوبصورت دم اٹھائے
روٹی کے ٹکڑے کو دانتوں میں دبائے بھاگتی ہے
ایک مکڑی
مغربی کونے میں جالا بن رہی ہے
شہر خالی ہو رہا ہے
کیا تم اپنی زندگی سے مطمئن ہو؟
ہاں۔۔۔ نہیں ہوں
خیر جانے دو۔۔۔ سنو
مسجد کا وہ بوڑھا موذن
خیر کی جانب بلاتا ہے تمہیں
اپنا غم کس سے کہیں
نظم
کھڑکی اندھی ہو چکی ہے
عادل منصوری