میری جیسی نظمیں لکھنے والی لڑکی
جس کھڑکی کی اوٹ سے مجھ کو دیکھ رہی ہے
اس کے دھندلے شیشوں پر سب عکس ہیں
میری آنکھوں سے بہتے پانی کے
اور نقش ہیں اس کی چوکھٹ پر ان ہاتھوں کے
اس کھڑکی کی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے
اچھا اور برا لمحہ
اور اندر اور باہر کے سب موسم وہیں سے گزرے ہیں
اس کھڑکی کے آگے گرتا ہر منظر تصویر کیا
دن کی اجلی آہٹ کو تعبیر کیا
رات ستاروں سے بھر کر شیشوں میں انڈیلی
اپنی آنکھیں دے کر طاق میں پھولوں جیسے خواب سجائے
اپنے تن پر گرد لپیٹی
کھڑکی پر کہیں جم نہیں جائے
باہر سے آتے کنکر پتھر اور کانٹے
چپکے سے اس دل میں چھپائے
کھڑکی کا کوئی بھی شیشہ ٹوٹ نہ جائے
بس اتنی سی بات کا کوئی دھیان نہ آیا
کھڑکی آخر کسی بھی سمت کو کھل سکتی ہے
میری ریاضت میری محبت
تند ہوا کے اس جھونکے سے
اور بارش کی تیز پھوار سے
چند لمحوں میں گھل سکتی ہے
دھل سکتی ہے
نظم
کھڑکی
عنبرین صلاح الدین