میں جا چکوں تو خیال رکھنا
رفیق میرے، زمین کی ان دراز پلکوں سے اشک بن کر
جڑے ہوئے ہیں
خیال رکھنا کہ سارے موسم بس ایک دکھ کے پیامبر ہیں
جو میرا دکھ ہے
یہ میرا دکھ ہے
کہ میں نے اس دکھ کی پرورش ہیں
لہو کا لقمہ، بدن کا ایندھن کیا فراہم
یہ دکھ مرا ہے، مرا رہے گا
کہ آسمانوں کی سمت میرے سوا کوئی صبح کا ستارا رواں نہیں ہے
نظم
خیال رکھنا
نجیب احمد