EN हिंदी
خوف نامہ | شیح شیری
KHauf nama

نظم

خوف نامہ

وحید احمد

;

ناف کٹتی ہے زخم جلتا ہے
خوف دھڑکن کے ساتھ چلتا ہے

ہر رگ جاں میں سرسراتا ہے
سانس کے ساتھ آتا جاتا ہے

کھال کو چھال سے ملاتی ہے
سنسنی رونگٹے بناتی ہے

طاق جاں میں چراغ رکھتا ہے
خوف وحشت کا تیل چکھتا ہے

سجدۂ غم میں گر گیا زاہد
سرسراتی جبیں میں خوف لیے

ہو گیا انگبین سے نمکین
ذائقہ آستیں میں خوف لیے

سانپ لشکر کے ساتھ چلتا ہے
میمنہ میسرہ میں خوف لیے

حسن غمزے کے دم سے قائم ہے
اپنی ہر ہر ادا میں خوف لیے

زندگی ایک فرش ہے جس پر
ڈر اٹھائیں تو ہول بچھتا ہے

شاہراہ حیات کے اوپر
خوف کا تارکول بچھتا ہے

مذہب ایجاد کرتا رہتا ہے
معبد آباد کرتا رہتا ہے

یہ تو اندر کی سنگ ساری ہے
خوف برباد کرتا رہتا ہے

فہم و دانش کے زرد سوداگر
وسوسوں کی کپاس بیچتے ہیں

روح کی مارکیٹ ان کی ہے
جو عقیدے ہراس بیچتے ہیں

زندگی ہم سفر ہے لیکن خوف
راستے میں اتار دیتا ہے

پرچۂ جاں کے ہر شمارے میں
واہمہ اشتہار دیتا ہے

موت خود مارتی نہیں جتنا
موت کا خوف مار دیتا ہے