EN हिंदी
خوف کا قہر | شیح شیری
KHauf ka qahr

نظم

خوف کا قہر

شہریار

;

وہ بڑھ رہا ہے مری سمت رک گیا دیکھو
وہ مجھ کو گھور رہا ہے وہ اس کے ہاتھوں میں

چمکتی چیز ہے کیا اور اس کی آنکھوں سے
وہ کیسی سرخ سی سیال شے ٹپکتی ہے

وہ اس کے ہونٹ ہلے وہ ببول کی شاخیں
کراہنے لگیں، وہ چیل اور کوؤں کے

پروں کے شور سے سناٹوں کا فسوں ٹوٹا
وہ چونک اٹھا وہ پیچھے مڑا وہ چلنے لگا

وہ تیز تیز بہت تیز تیز چلنے لگا
وہ اک غبار سا وہ دھند سی نگاہوں کی

حدوں سے دور بہت دور جا چکا ہے وہ
وہ کون تھا وہ مری سمت بڑھ رہا تھا کیوں؟