کیا ہوا شوق فضول
کیا ہوئی جرأت رندانہ مری
مجھ پہ کیوں ہنستی ہے تعمیر صنم خانہ مری
پھر کوئی باد جنوں تیز کرے
آگہی ہے کہ چراغوں کو جلاتی ہی چلی جاتی ہے
دور تک خوف کا صحرا نظر آتا ہے مجھے
اور اب سوچتا ہوں فکر کی اس منزل میں
عشق کیوں عقل کی دیوار سے سر ٹکرا کر
اپنے ماتھے سے لہو پونچھ کے ہنس پڑتا ہے
نظم
خوف کا صحرا
شاذ تمکنت