EN हिंदी
خطرے کا نشان | شیح شیری
KHatre ka nishan

نظم

خطرے کا نشان

فارغ بخاری

;

دائروں میں چلتے چلتے
ہم کہاں تک آ گئے

اونگھتے ہی اونگھتے
خواب گراں تک آ گئے

گہرے پانی میں اتر کر
پار ہونے کے بجائے

ڈرتے ڈرتے اب تو
خطرے کے نشاں تک آ گئے