سلسلے خواب کے گمنام جزیروں کی طرح
سینۂ آب پہ ہیں رقص کناں
کون سمجھے کہ یہ اندیشۂ فردا کی فسوں کاری ہے
ماہ و خورشید نے پھینکے ہیں کئی جال ادھر
تیرگی گیسوئے شب تار کی زنجیر لیے
میرے خوابوں کو جکڑنے کے لیے آئی ہے
یہ طلسم سحر و شام بھلا کیا جانے
کتنے دل خون ہیں انگشت حنائی کے لیے
کتنے دل بجھ گئے جب روئے نگاراں میں چمک آئی ہے
خواب ہیں قید مکاں قید زماں سے آگے
کس کو مل سکتا ہے اڑتے ہوئے لمحوں کا سراغ
کتنی صدیوں کی مسافت سے ابھرتا ہے
خط راہ گزار
نظم
خط راہ گزار
اختر پیامی