خرابی کا آغاز
کب اور کہاں سے ہوا
یہ بتانا ہے مشکل
کہاں زخم کھائے
کہاں سے ہوئے وار
یہ بھی دکھانا ہے مشکل
کہاں ضبط کی دھوپ میں ہم بکھرتے گئے
اور کہاں تک کوئی صبر ہم نے سمیٹا
سنانا ہے مشکل
خرابی بہت سخت جاں ہے
ہمیں لگ رہا تھا یہ ہم سے الجھ کر
کہیں مر چکی ہے
مگر اب جو دیکھا تو یہ شہر میں
شہر کے ہر محلے میں ہر ہر گلی میں
دھوئیں کی طرح بھر چکی ہے
خرابی روئیں میں
خوابوں میں، خواہش میں
رشتوں میں گھر چکی ہے
خرابی تو لگتا ہے
خوں میں اثر کر چکی ہے
خرابی کا آغاز
جب بھی جہاں سے ہوا ہو
خرابی کے انجام سے غالباً
جاں چھڑانا ہے مشکل

نظم
خرابی
عزم بہزاد