اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر
جہاں پڑے ہیں نکیلے سے سرمئی کنکر
جہاں کی خاک پہ شبنم کے ہار بکھرے ہیں
شفق کی نرم کرن جس پہ جھلملاتی ہے
شکستہ اینٹوں پہ مکڑی کے جال ہیں جس جا
یہیں پہ دل کو نئے درد سے دو چار کیا
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر
یہ نہر جس میں کبھی لہر بھی اٹھی ہوگی
جو آج دیدۂ بے آب و نور ہے گویا
جسے حباب کے رنگین قمقمے نہ ملے
بجائے موج جہاں سانپ رقص کرتے تھے
یہیں نگاہ تمنا کو اشک بار کیا
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر
مہیب غار کے کونے پہ یہ جھکا سا درخت
فضا میں لٹکی ہوئی کھوکھلی جڑیں جس کی
یہ ٹہنیاں جو ہواؤں میں تھرتھراتی ہیں
بتا رہی ہیں کہ ماضی کی یادگار ہیں ہم
انہیں کی چھاؤں میں شام جنوں سے پیار کیا
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر
نظم
کھنڈر
شمیم کرہانی