EN हिंदी
کھنڈر آسیب اور پھول | شیح شیری
khanDar aaseb aur phul

نظم

کھنڈر آسیب اور پھول

وحید اختر

;

یہ بھی طلسم ہوشربا ہے
زندہ چلتے پھرتے ہنستے روتے نفرت اور محبت کرتے انساں

صرف ہیولے اور دھویں کے مرغولے ہیں
ہم سب اپنی اپنی لاشیں اپنے توہم کے کاندھوں پر لادے سست قدم واماندہ

خاک بہ سر دامان دریدہ زخمی پیروں سے کانٹوں انگاروں پر چلتے رہتے ہیں
ہم سب ایک بڑے قبرستاں کے آوارہ بھوت ہیں

جن کے جسم تو ہاتھ لگانے سے تحلیل خلا میں ہوں
جن کی روحوں کا ظاہر سے ظاہر گوشہ ہاتھ نہ آئے

ہم کو ماضی سے ورثے میں کہنہ قبریں، گرتے ملبے اور آسیب زدہ کھنڈروں کے ڈھیر ملے ہیں
وہ روشن شب تاب دیے جن سے ماضی کو نور ملا تھا

اس آسیب زدہ ماحول میں یوں جلتے ہیں
جیسے اک پر ہول بیاباں کے تیرہ سناٹے میں

کچھ بھوتوں نے
رہ گم کردہ سیاحوں کو بھٹکانے کی خاطر آگ جلائی ہو

اب یہ اجالے صرف دھواں ہیں
اور آسیب زدہ کھنڈروں کی چھت کے چٹختے شہتیروں کے شور میں کوئی ہنستا ہے

جھڑتا چونا گرتی مٹی نیم معلق دیوار و در
چپکے چپکے روتے ہیں

طاقوں کے خاموش دیے ظلمت کو بڑھاوا دیتے ہیں
صحن کے صد ہا سال پرانے بوڑھے پیڑ

قبروں کے بے درد مجاور بن کر لاشوں پر سوکھے پتوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں
ہم سب اپنی اپنی لاشیں اپنے انا کے دوش پہ لادے

اک قبرستاں کی پر ہول اداسی سے اکتائے ہوئے
ایک نئے شمشان کا رستہ ڈھونڈ رہے ہیں

منتظر مرگ انبوہ ہجوم آنکھوں کے خالی کاسے کھولے ہر سو دیکھ رہا ہے
جانے کب کوئی آئے گا جو اپنے دامن کی ہوا سے

بھوتوں کا جلنا دیکھے گا
اور بھیانک سائے گلے مل مل کر کھوکھلی آوازوں میں روئیں گے

اس منظر میں جانے پھر ایسا کوئی آئے کہ نہ آئے
ہجو ویراں مایوس نگاہوں کی خالی جھولی پھیلائے

راکھ میں پھول کریدے گا