بیل نے گائے کا منہ چوما خبر بن نہ سکی
دیکھنے والوں کو عرفان نظر ہو نہ سکا
گھوڑے نے گھوڑی کا منہ چوما خبر بن نہ سکی
ہنہنایا پہ کوئی اہل خبر ہو نہ سکا
یہ خبر ہے کہ سر راہ کسی لڑکی کو
چومتا پکڑا گیا ایک شرابی لڑکا
وہیں قانون کی زنجیر گراں طوق بنی
وہیں اخبار کی سرخی نے انہیں جا پکڑا
میں یہی سوچ رہا تھا کہ سر شام مجھے
جاتے سورج کے بھی اطوار کچھ ایسے ہی ملے
اس کا منہ زرد تھا احساس جدائی ہوگا
اس نے اک بدلی کا منہ چوم لیا چپکے سے
دفعتاً بدلی کا منہ سرخ ہوا اور حیا
دوڑی خوں بن کے رگ و پے میں کہ گلنار ہوئی
اس کے دامن پہ چھلک اٹھے ستارے آنسو
اور سورج کی طرح خود بھی وہیں ڈوب گئی
وہی تارے تھے مگر رات کے اخبار فروش
یہ خبر شام سے ہی سارے فلک پر پہنچی
پہلے تو لاکھوں دریچوں سے نگہباں جھانکے
چاندنی چھٹکی تو پھر چاند نے کی رکھوالی
صبح دم نیند کے ماتے تھے سبھی اہل فلک
سورج آیا تو کسی کو نہ رہا اس کا خیال
وہی بدلی تھی افق پر وہی عنوان حیا
دونوں تکتے رہے مبہوت نگاہوں سے جمال
پھر محبت نے کیا ثبت سلام رنگیں
سرخ بدلی کا لہو دوڑ گیا چار طرف
دونوں خوش تھے انہیں معلوم تھا آزاد ہیں وہ
ان کا ملنا نہیں انساں کی نگاہوں کا ہدف
میں نے دیکھی ہے مگر دونوں کی یہ گستاخی
میں خبر دیتا ہوں اخبار کو دیکھو تو سہی
نظم
خبر
یوسف ظفر