خبر شاکی ہے تم مجھ کو
فقط قصہ سمجھ کر ہی نظر انداز کرتے ہو
کبھی سوچا ہے تم نے یہ کہ
اک چھوٹے سے قصے نے
خبر بننے کے پہلے کیا جتن جھیلے ستم کاٹے
کسی بے نام کوچے سے نکل کر سامنے آیا
سسکتے اونگھتے لوگوں کو چونکایا
بہت کچھ اور بھی کرتا ہوا قصہ خبر کا روپ لیتا ہے
مگر تم تو فقط قصہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہو
سبب اس کا یہ ہے شاید
یہاں ہے موت بھی معمول میں شامل
کنوارے بے زباں جسموں پہ حملے روز ہوتے ہیں
ڈکیتی قتل اغوا لوٹ اور آتش زنی
بہت کچھ ہوتا ہی رہتا ہے
نیا جیسے کہیں کچھ بھی نہیں
لیکن کبھی تم پر
اور ان پر بھی کہ جن پر سب گزرتا ہے
سبھی کچھ خاص تب ہوگا
کبھی تم پر بھی کچھ گزرے
خبر شاکی ہے تم مجھ کو
فقط قصہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہو
نظم
خبر شاکی ہے
بدر واسطی