خبر مفقود ہے لیکن
لہو میں بھاگتی خواہش امیدوں کے ہرے ساحل پہ حیراں ہے
اسے کشف سحر جو بھی ہوا
سورج سے خالی ہے
اسے جو راستے سونپے گئے تقسیم ہوتے زاویوں میں سانس لیتے ہیں
کھلی آنکھوں میں روشن
چاند تاروں کے چمکنے سے بہت پہلے
غنیم وسعت داماں
ہزاروں چاہ ڈھونڈھ لیتا ہے
خبر مفقود ہے لیکن
حصار ذات سے نکلا ہوا جذبہ
سر محراب و منبر دار و مقتل تک نہیں آیا
ہوا ستر قدم کا مرثیہ میلے پھٹے ملبوس
گھوڑوں کے سموں سے میخ ہوتی آرزو اپنی گواہی کس طرح دے گی
معین حوصلے صندوقچوں میں جاں بلب ہیں
اور توانا بازوؤں میں
چوڑیوں کی مثل زنجیر کہن آواز دیتی ہے
خبر مفقود ہے لیکن
کہو تم تو کہو جو بات کہنا ہے
نظم
خبر مفقود ہے لیکن
فرخ یار