EN हिंदी
خبر ہے کہ نہیں | شیح شیری
KHabar hai ki nahin

نظم

خبر ہے کہ نہیں

جوشؔ ملیح آبادی

;

اب صبا کوچۂ جاناں میں گزرے ہے کہ نہیں
تجھ کو اس فتنۂ عالم کی خبر ہے کہ نہیں

بجھ گیا مہر کا فانوس کہ روشن ہے ابھی
اب ان آنکھوں میں لگاوٹ کا اثر ہے کہ نہیں

اب میرے نام کا پڑھتا ہے وظیفہ کوئی
اب مرا ذکر وفا درد سحر ہے کہ نہیں

اب بھی تکتی ہیں مری راہ وہ کافر آنکھیں
اب بھی دزدیدہ نظر جانب در ہے کہ نہیں

چھپ کے راتوں کو مری یاد میں روتا ہے کوئی
موجزن آنکھ میں اب خون جگر ہے کہ نہیں

حسن کو پرسش بیمار کا ہے اب بھی خیال
مہر کی ذرہ خاکی پہ نظر ہے کہ نہیں

بے خبر مجھ کو زمانے سے کیا ہے جس نے
کچھ اسے میری تباہی کی خبر ہے کہ نہیں

کھائے جاتا ہے مجھے درد غریب الوطنی
دل پر اس جان وطن کے بھی اثر ہے کہ نہیں

جوشؔ خاموش بھی ہو پوچھ رہا ہے کیا کیا
کچھ تجھے تاڑنے والوں کی خبر ہے کہ نہیں