چار تنکے اٹھا کے جنگل سے
ایک بالی اناج کی لے کر
چند قطرے بلکتے اشکوں کے
چند فاقے بجھے ہوئے لب پر
مٹھی بھر اپنی قبر کی مٹی
مٹھی بھر آرزوؤں کا گارا
ایک تعمیر کی، لیے حسرت
تیرا خانہ بدوش بے چارہ
شہر میں در بدر بھٹکتا ہے
تیرا کاندھا ملے تو سر ٹیکوں