دروازے کے شیشوں سے لگی ہیں آنکھیں
ہر گوشے میں ماضی کی کمیں گاہیں ہیں
یادیں ہیں کہ بکھرے ہوں کھلونے جیسے
کچھ آہٹیں کچھ قہقہے کچھ آہیں ہیں
جو لوگ یہاں رہتے تھے ان کے سائے
چپ چاپ پھرا کرتے ہیں ان کمروں میں
کھوئی ہوئی آواز گئے وقتوں کی
گونج اٹھتی ہے مانند اذاں کانوں میں
میں آیا ہوں اپنے یہاں مہماں بن کر
کچھ روز گزاروں گا چلا جاؤں گا
مٹ جائے گا غم دوری کا دھیرے دھیرے
کیا جانیے پھر لوٹ کے کب آؤں گا
ہر سنگ ہے اک سنگ ملامت گویا
ہر کتبۂ دیوار ہے دشنام مجھے
پیمان وفا باندھا تھا میں نے ان سے
اب تکتے ہیں حیرت سے در و بام مجھے
نظم
خانۂ متروک
منیب الرحمن