EN हिंदी
خاموشی کا شہر | شیح شیری
KHamoshi ka shahr

نظم

خاموشی کا شہر

انیس ناگی

;

ہوا دھند کے پھیلے لب چومتی ہے
کہاں زندگی ہے؟

کہاں زندگی کے نشاں ہیں کہ تم شہر میں ہو
جہاں ایک ہی روپ ہے جو ہمیشہ رہے گا

اٹھو باؤلے اب تمہیں کس تمنا نے منزل کا دھوکا دیا ہے
کہ تم سانس کی اوٹ میں چپ کھڑے سوچتے ہو

یہاں ہر نفس بے صدا ہے
یہاں ہر گھڑی اب سسکتی سی زنجیر

ہر اک وفا تیرگی کا ستوں ہے
چلو خواہشیں ڈھونڈنے

بن سنور کے چلو خواہشیں ڈھونڈنی ہیں
نہیں تو یہی خامشی بھوت بن کر

گھروں کے کواڑوں کے پیچھے ہمیشہ ڈراتی رہے گی