خالی آنکھوں کا مکان مہنگا ہے
مجھے مٹی کی لکیر بن جانے دو
خدا بہت سے انسان بنانا بھول گیا ہے
میری سنسان آنکھوں میں آہٹ رہنے دو
آگ کا ذائقہ چراغ ہے
اور نیند کا ذائقہ انسان
مجھے پتھروں جتنا کس دو
کہ میری بے زبانی مشہور نہ ہو
میں خدا کی زبان منہ میں رکھے
کبھی پھول بن جاتی ہوں اور کبھی کانٹا
زنجیروں کی رہائی دو
کہ انسان ان سے زیادہ قید ہے
مجھے تنہا مرنا ہے
سو یہ آنکھیں یہ دل
کسی خالی انسان کو دے دینا
نظم
خالی آنکھوں کا مکان
سارا شگفتہ