لب بیاباں، بوسے بے جاں
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
جسم کی یہ کار گاہیں
جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم!
نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہمسائے
کہ جیسے دزد شب گرداں کوئی!
شام سے تھے حسرتوں کے بندۂ بے دام ہم
پی رہے تھے جام پر ہر جام ہم
یہ سمجھ کر جرعۂ پنہاں کوئی
شاید آخر ابتدائے راز کا ایما بنے!
مطلب آساں حرف بے معنی
تبسم کے حسابی زاویے
متن کے سب حاشیے
جن سے عیش خام کے نقش ریا بنتے رہے!
اور آخر بعد جسموں میں سر مو بھی نہ تھا
جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے
قرب چشم و گوش سے ہم کون سی الجھن کو سلجھاتے رہے!
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم؟
یا زوال عمر کا دیو سبک پا رو بہ رو
یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
نظم
کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟
ن م راشد